مضبوط امیدوار نہیں ملا تو سیٹ بی جے پی کے پاس جاسکتی، لیکن شندے ایسا نہیں چاہتے
ممبئی: آئندہ اسمبلی انتخابات میں ورلی ریاست کے سب سے زیادہ زیر بحث حلقوں میں سے ایک بننے جا رہا ہے۔ آدتیہ ٹھاکرے، ٹھاکرے خاندان کے پہلے رکن ہیں، جنہوں نے 2014 میں اس حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم شیوسینا میں پھوٹ پڑنے کے بعد شیوسینا کے شندے گٹ اور بی جے پی دونوں کو ورلی میں ان کے خلاف سخت مقابلہ کرنے کی امید ہے۔ 2019 میں ایم این ایس نے آدتیہ کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا، لیکن اس بار وہ ورلی سیٹ کے لئے بھی امیدواروں پر غور کر رہے ہیں۔ نتیجتاً، ورلی حلقہ میں ہائی وولٹیج مقابلہ ہوگا۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے منسلک 56.56 کروڑ روپے مالیت کی 35 غیر منقولہ جائیدادیں ضبط
ورلی میں ایم این ایس سندیپ دیش پانڈے کو ممکنہ امیدوار بنانے پر غور کر رہی ہے جبکہ بی جے پی کی شائنا این سی پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ کچھ ایم این ایس کارکنان نے امیت ٹھاکرے سے ورلی سے انتخاب لڑنے پر غور کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔ توقع ہے کہ یہ انتخاب ٹھاکرے اور شندے کے درمیان مقابلہ ہوگا، حالانکہ آدتیہ ٹھاکرے کو چیلنج کرنے کے لئے شندے گٹ کی طرف سے ابھی تک کسی مضبوط امیدوار کو نامزد نہیں کیا گیا ہے۔ نتیجتاً بی جے پی امیدواروں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق شندے گٹ نے ورلی میں ٹھاکرے کی پارٹی کے ایک اہم لیڈر کو ٹکٹ کی پیش کش کی تھی ، لیکن اس نے ٹھاکرے کیمپ چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔ اس سے شندے کے لئے آدتیہ ٹھاکرے کے خلاف مناسب امیدوار تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ 2014 میں شیوسینا کے سنیل شندے نے ورلی حلقہ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ آدتیہ ٹھاکرے نے 2019 میں یہاں سے الیکشن لڑا تھا اور 89248 ووٹ حاصل کیے تھے۔ ورلی حلقہ متنوع ہے، جس میں بڑی چالوں کے ساتھ ساتھ اونچی اونچی عمارتیں بھی ہیں، اس میں متوسط طبقے اور محنت کش طبقے کی ایک بڑی آبادی شامل ہے۔ یہ ریس کورس، آرتھر روڈ جیل اور ممبئی کے سب سے بڑے دھوبی گھاٹ جیسے علاقوں کا احاطہ کرتا ہے۔ مہاراشٹر کے سبھی حصوں کے لوگ یہاں رہتے ہیں، جن کی بڑی تعداد گجراتی آبادی پر مشتمل ہے۔ بی ڈی ڈی چالوں کی تعمیر نو کا مسئلہ بحث کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکناتھ شندے یہ سیٹ بی جے پی کو دینے سے ہچکچا رہے ہیں لیکن قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اگر شندے سینا کا مضبوط امیدوار نہیں ملا تو یہ سیٹ بی جے پی کے پاس جاسکتی ہے۔
Post A Comment:
0 comments: