مالیگاؤں: (ریحان یونس) مسائل اور پریشانیاں شہریان کا مقدر بن گئی ہیں۔سالہا سال گزرنے کے بعد بھی شہر کا ایک بڑا طبقہ اور ایک بڑا علاقہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ شہر اب تک سڑک، گٹر اور پانی کے مسائل سے ابھر نہیں سکا ہے۔انتخابات بھی روڈ گٹر کے مدعے پر ہورہے ہیں۔تعمیری و ترقیاتی کاموں پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کا فقدان ہے۔عوام پانچ سال تک محرومی کا رونا روتی ہے اور انتخابات آنے پر چند روپوں میں اپنے ووٹ کا سودا کرلیتی ہے۔شہر اور محلے کی کچھ ادارے نما کلبیں ایک موٹی رقم کے عوض اہلیان محلہ کے ووٹوں کا سودا کرلیتی ہیں اور نمائندے کو کامیاب بنانے کیلئے دن رات ایک کردیتے ہیں۔لیکن انتخابات کے بعد نا تو عوامی نمائندے نظر آتے ہیں اور نہ ہی انہیں کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والی کلبوں کے ذمہ داران۔عوام بھی خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔پھر پانچ سال تک رونا دھونا اور محرومی کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔شہر بھر میں جابجا گندگی کے ڈھیر، بارش میں گٹروں کا پانی سڑکوں حتی کہ گھروں میں داخل ہوکر ہمارے اپنے انتخاب کا منہ چڑاتا ہے۔ہماری صنعت تباہی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے، روزگار کے دوسرے ذرائع ہمارے پاس موجود نہیں ہیں، ہمارے بچوں کی تعلیم کیلئے اعلی تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔غیر قانونی تجاوزات میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔سڑکیں اور گلیاں تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہیں۔نشہ اور جرائم کا کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ مگر ہم خوش ہیں، ہم خاموش ہیں، ہم مطمئن ہیں، ہماری زندگی تو کٹ گئی لیکن کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کو اندھے کنویں میں نہیں دکھیل رہے؟ درحقیقت یہ زندگی ہمارا اپنا انتخاب ہے۔اس زندگی اور ان حالات کا انتخاب ہم نے خود کیا ہے اور ہر پانچ سال بعد ہم اس زندگی کا انتخاب کرتے ہیں۔ہم عادی ہوچکے ہیں مسائل کے، محرومی کے، ہم تبدیلی چاہتے ہی نہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کے مصداق مصداق آج جو بھی حالات ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔آج ہماری صنعت کے حالات ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں، ہمارے تعلیمی اداروں کے معیار سے بھی ہم واقف ہیں لیکن ہم مطمئن ہیں، ہم مست ہیں اپنی زندگی اور اپنی مصروفیات میں۔پڑوس سے، پڑوسیوں سے بے خبر ہم نے اپنے آپ کو میں کے ایک چھوٹے سے خانے میں قید کر رکھا ہے۔ شاید ہم سے وہ توفیق بھی چھن جائے کہ ہم اس سے باہر نکل سکیں۔ ضرورت ہے ایک منظم پلیٹ فارم کی، ضرورت ہے کچھ پختہ عزم نوجوانوں کی، جو حالات کے دھارے کا رخ موڑ سکیں اور اگر نہ بھی موڑ سکیں تو بساط بھر کوشش ہی کریں کہ آئندہ نسلوں کو ایک مشعل راہ مل سکے۔بلاشبہ تبدیلی فی الفور نہیں آنی والی لیکن آج بیج بونے کی سعی کرنی ہے، اس کی آبیاری کرنی ہے تاکہ یہ بیج ایک تن آور درخت بن سکے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Post A Comment:
0 comments: