چوطرفہ مخالفت کے بعد ہندی کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ واپس، وزیر برائے اسکولی تعلیم دادا بھُسے نے حکومت کا موقف واضح کیا
ممبئی: پہلی سے پانچویں جماعت تک ہندی کو لازمی بنانے کے فیصلے پر چوطرفہ مخالفت کے بعد ریاستی حکومت نے منگل کے روز کہ اعلان کیا کہ ہندی زبان اب لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہوگی.
یہ بھی پڑھیں..... وقف قانون کی واپسی تک ملک گیر احتجاج جاری رہے گا: مولانا خالد سیف اللہ رحمانیmendment-Act-Is-Rolled-Back.html
وزیر برائے اسکولی تعلیم دادا بھُسے کو اس متنازعہ اقدام کے سلسلے میں منترالیہ میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا. انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر دیڑھ گھنٹے تک بحث ہوئی جس کے بعد "لازمی" اصطلاح کو واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا. وزیر دادا بھسے نے کہا کہ وسیع پیمانے پر مخالفت کے سبب اب ہندی مضمون اختیاری کردیا گیا ہے. جلد ہی ایک نظر ثانی شدہ حکومتی قرارداد جاری کی جائے گی، جس میں طلباء کو اپنی تیسری زبان کا انتخاب کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ بھسے نے کہا کہ ہندی، قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کے تحت تین زبانوں کے فارمولے کا حصہ ہے، لیکن لازمی نہیں ہے۔
موجودہ ذو لسانی ڈھانچہ کی جگہ تین زبانوں کے ماڈل کے ساتھ ہندی کو انگریزی اور مراٹھی کے ساتھ لازمی قرار دئیے جانے کی ابتدائی تجویز کی سخت مخالفت کی گی. یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ مہاراشٹر کے اسکولوں میں ہندی کو لازمی بنانے کا اقدام مرکزی حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ مہاراشٹر کے اسکولوں میں ہندی کو لازمی بنانے کا اقدام مرکزی حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ منترالیہ میں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دادا بھُسے نے کہا کہ مرکزی حکومت نے این ای پی کے تخت کسی بھی زبان کو لازمی نہیں بنایا لے. ہندی اختیاری ہے لازمی نہیں. ہم جی آر پر نثر ثانی کریں گے. حکومت کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے وزید برائے اسکولی تعلیم دادا بھُسے نے کہا کہ ہندی مراٹھی کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے دونوں کا رسم الخط (دیوناگری) بھی ایک ہے. جس کے سبب طلباء کے لئے سیکھنا آسان ہوجاتا ہے. ہندی پہلے ہی پانچویں جماعت سے پڑھائی جاتی ہے. جماعت اول سے ہندی پڑھائے جانے کے خیال کا مقصد سیکھنے کے عمل کو آسان بنانا تھا. مراٹھی اور انگریزی لازمی مضمون ہوں گے، اگر طالب علم اپنے تیسرے متبادل کے طور پر کسی اور زبان کو ترجیح دیتے ہیں تو ہم دلچسپی اور اساتذہ کی دستیابی کا جائزہ لیں گے.
دو روز قبل وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے ہندی کو لازمی بنانے کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکولوں میں تین زبانیں پڑھانا لازمی ہے اور ان میں سے دو کا ہندوستانی ہونا لازمی ہے۔ چونکہ ہمارے پاس پہلے ہی ریاست بھر میں ہندی اساتذہ کی کافی تعداد موجود ہے ، لہذا اسے تیسری لازمی زبان کے طور پر تجویز کیا گیا تھا۔ اگر ہم تمل، گجراتی، کنڑ یا ملیالم جیسی دیگر ہندوستانی زبانوں کا انتخاب کرتے ہیں، تو ہمارے پاس فی الحال کافی تدریسی عملہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ حکومت جلد ہی ایک فیصلہ کرے گی جس میں طلباء کو اپنی تیسری زبان کے طور پر ہندی کے بجائے کسی اور ہندوستانی زبان کا انتخاب کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 'اگر 20 سے زیادہ طالب علم متبادل زبان کا انتخاب کرتے ہیں، تو ایک وقف استاد مقرر کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے گروپوں کے لئے آن لائن کلاسوں جیسی سہولیات کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔
16 اپریل کو جاری کیے گئے اصل جی آر میں پہلی کلاس سے ہندی کو لازمی قرار دیا گیا تھا، جس پر تمام سیاسی حلقوں میں سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔ مہارشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) سربراہ راج ٹھاکرے نے متنبہ کیا کہ اس طرح کے اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 'مہاراشٹر میں پہلی کلاس سے ہندی کو لازمی کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے اسکول انتظامیہ سے توجہ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہندی کی درسی کتابوں کو دکانوں میں فروخت کرنے یا اسکولوں کے ذریعہ تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کانگریس پارٹی نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔وجے وڈیٹیوار نے کہا کہ اگر تیسری زبان کی ضرورت ہے تو اسے اختیاری ہونا چاہئے۔
Post A Comment:
0 comments: